صحیح بخاری کی پہلی حدیث اسلام کی بنیادوں میں سے ایک ہے۔ امام بخاریؒ نے اپنی مشہور کتاب الجامع الصحیح کا آغاز اس حدیث سے کیا:
"إنما الأعمال بالنيات، وإنما لكل امرئ ما نوى"
(بے شک اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے، اور ہر شخص ک
وہی ملے گا جس کی اس نے نیت کی۔)
— (صحیح بخاری: حدیث نمبر 1)
یہ حدیث ہمیں یاد دلاتی ہے کہ اسلام میں کسی بھی عمل کی قبولیت صرف ظاہری شکل پر نہیں بلکہ نیت کی خالصتاً اللہ کے لیے ہونے پر منحصر ہے۔ اگر کوئی شخص نماز پڑھتا ہے، روزہ رکھتا ہے، صدقہ دیتا ہے یا علم حاصل کرتا ہے — لیکن نیت دنیاوی فائدہ یا دکھاوے کی ہو تو وہ عمل بے وقعت ہو جاتا ہے۔
حضرت عمر بن خطابؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اگر کسی نے ہجرت اللہ اور اس کے رسول کے لیے کی تو اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہے۔ لیکن اگر کسی نے دنیا حاصل کرنے یا کسی عورت سے نکاح کے لیے ہجرت کی تو اس کی ہجرت اسی مقصد کے لیے ہے جس کے لیے اس نے نیت کی۔
یہ حدیث دراصل ہر مسلمان کے لیے ایک آئینہ ہے۔ یہ ہمیں سکھاتی ہے کہ زندگی کے ہر فیصلے میں اپنی نیت کو پرکھنا کتنا ضروری ہے۔ چاہے وہ عبادت ہو، تجارت، تعلیم یا کسی کی مدد — اگر نیت خالص اللہ کی رضا کے لیے ہو تو وہ عام سا کام بھی عبادت بن جاتا ہے۔
آج کے دور میں جہاں دکھاوا، لائکس، اور شہرت عام ہو چکی ہے، ہمیں اس حدیث کے پیغام کو سمجھنا اور اپنی نیتوں کو درست کرنا پہلے سے زیادہ ضروری ہے۔ نیت ہی وہ چیز ہے جو دلوں کو بدلتی ہے اور انسان کو اللہ کے قریب لے جاتی ہے۔
... See More